(ایجنسیز)
مسجد اقصیٰ کی لائبریری دنیا بھر میں اسلامی نسخوں کے اہم ترین مراکز میں سے ایک ہے۔ یروشلم کے عرب لیڈروں نے انیس سو بیس کے عشرے میں مشرق وسطیٰ کے دانشوروں سے ہنگامی طور پر اپیل کی کہ وہ اپنی کتب انہیں ارسال کریں تاکہ ان کتابوں کو آئندہ نسلوں کے لیے مسجد اقصیٰ میں نئے تعمیر شدہ کتب خانے میں محفوظ کیا جا سکے۔
اس اپیل پر ہر طرف سے ادباء کی تصانیف کی بارش شروع ہو گئی۔ ان میں ہر طرح کا تحریری مواد شامل تھا۔اس اہم منصوبے کے تحت ایک وسیع علمی خزانہ اکھٹا تو ہو گیا تاہم ان میں شامل صدیوں پرانے مخطوطات بہت ہی مخدوش حالت میں تھے۔ اب یروشلم کے مذہبی حکام نے ان کتابوں کو محفوظ کرنے اور انہیں ڈیجیٹلائز کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔ ان میں بہت سے قلمی نسخے اور دستاویزات بھی شامل ہیں۔اس اہم کام کا بیڑا اُٹھانے والوں کی کوشش ہے کہ اس بیش قیمت اور نادر علمی خزانے کو آن لائن شائع کیا جائے تاکہ اس سے عرب دنیا کے وہ محققین اور دانشور بھی استفادہ کر سکیں جو یروشلم تک کا سفر نہیں کر سکتے ہیں۔مسجد اقصیٰ کی لائبریری کے منتظم حامد ابو طیر ان مخطوطات اور کتابوں کو ایک "خزانہ" سمجھتے ہیں۔مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا تیسرا سب سے بڑا مقدس مقام ہے۔ یہ ایک پہاڑی مقام پر واقع ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ جگہ ایک حرم یا متبرک مقام کی حیثیت رکھتی ہے جبکہ یہودی اسے ’ ٹیمپل ماؤنٹ‘ کہتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے خطے میں عرب مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین صدیوں سے نزاع کا باعث بنا ہوا یہ مقام علاقائی اور مذہبی تناظر میں ’گراؤنڈ زیرو‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں قائم مسجد اقصیٰ کے کتب خانے میں ایک لاکھ تیس ہزار کتابیں موجود ہیں، جنہیں دو کمروں میں محفوظ کیا گیا ہے۔ ان کمروں کی دیواریں قدیم پتھروں سے بنی ہوئی ہیں، جن میں بنے فولادی بُک شیلف کتابوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ اس ذخیرے میں وہ چار ہزار مسودے بھی شامل ہیں، جو یروشلم کے مختلف خاندانوں کی نجی ملکیت ہیں۔قدیم مسودوں اور کتابوں کو محفوظ کرنے کے لیے جاری پروجیکٹ کو یونیسکو کا تعاون حاصل ہے۔ اس عالمی ادارے کے بقول "مسجد اقصیٰ کی لائبریری دنیا بھر میں اسلامی نسخوں کے اہم ترین مراکز میں سے ایک ہے۔"آج کل مخطوطات کو محفوظ کرنے اور انہیں آن لائن مہیا کرنے کا رجحان پوری دنیا میں تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ بڑی تعداد میں تاریخی دستاویزات کو ڈیجیٹلائز کرتے ہوئے انہیں آن لائن شائع کرنے کا مقصد دنیا بھر کے محققین کے لیے ان دستاویزات کو قابل رسائی بنانا ہے۔ یہاں معاملہ محض فاصلوں
کو کم کرنے کا نہیں ہے بلکہ ایسے بہت سے ممالک ہیں، جن کے اسرائیل کے ساتھ کوئی سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ ان میں متعدد عرب ریاستیں بھی شامل ہیں، جن کے باشندوں کو یروشلم جانے کی اجازت نہیں ہے۔ اُدھر غرب اُردن اور غزہ پٹی کے علاقے میں رہنے والے فلسطینیوں کو بھی یروشلم میں داخلے کے لیے اسرائیل سے اجازت نامے لینا پڑتے ہیں۔یروشلم حکام امید کر رہے ہیں کہ کتابوں اور دستاویزات کو آن لائن شائع کر کے اس علمی خزانے تک پہنچنے کی جستجو رکھنے والوں کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہو جائیں گی۔ مسجد اقصیٰ کی لائبریری کے منتظم حامد ابو طیر کہتے ہیں، ’ان کتابوں تک ایک عرب مسلم طالبعلم کی رسائی ممکن نہیں ہے۔ مثال کے طور پر سعودی عرب یا الجزائر کا ایک طالبعلم یہاں آ کر ان مخطوطات سے استفادہ نہیں کر سکتا۔ ہم ایسے طلبعلموں کو اُن کے گھروں پر اس علمی خزانے سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کرنا چاہتے ہیں۔اسرائیل کے القاسم اکیڈمک کالج کے ایک پروفیسر ولید احمد نے مسجد اقصیٰ کی اس لائبریری کا دورہ کیا۔انہوں نے کہا کہ مذہبی کونسل نے اس پروجیکٹ کے ذریعے عربوں کو یہ قدیم نسخے اور کتابیں یہودیوں اور غیر ملکیوں کے ہاتھوں فروخت کرنے سے روک لیا اور اس طرح اسلامی تہذیب کے اس انمول خزانے کو ایک مقدس مقام میں محفوظ کر لیا ہے۔اس لائبریری میں سب سے قدیم کتاب 900 سال پرانی ہے جبکہ کچھ انیسویں صدی کی ہیں۔زیادہ تر کتابیں مذہبی ہیں۔ اس کے علاوہ جغرافیہ، فلکیات اور طب کے مضامین پر مشتمل کتابیں بھی اس لائبریری میں موجود ہیں۔ مخطوطات کی تجدید و تحفظ کے کام پر مامور ردوان امرو کے مطابق اس پورے ذخیرے میں سب سے مشہور مسودہ بارہویں صدی کے معروف اسلامی مفکر اور دانشور امام محمد الغزالی کا ہے۔کُل چار ہزار مسودوں میں سے قریب نصف کی حالت مخدوش ہے۔ یہ مخطوطات بڑے بڑے پلاسٹک بیگز اور ڈبوں میں بند کر کے لائبریری کے نزدیک ایک علیحدہ بلڈنگ میں رکھے گئے تھے۔ قریب نصف صدی وہاں پڑے رہنے کے بعد انہیں کھولا گیا تو پتہ چلا کہ ان میں سے بہت سی کتابیں چوروں کی لوٹ مار کی نذر ہو چُکی ہیں اور اکثر کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ بچی کھچی کتابوں میں سے نصف کی تجدید و بحالی کا کام جاری ہے جبکہ اس خزانے کا دوسرا نصف حصہ فی الحال لائبریری کے ایک چھوٹے سے کمرے میں کُھلا پڑا ہے۔ دیمک زدہ اور تارتار مسودے ایک بڑی سی میز پر بکھرے پڑے ہیں اور ماہرین مخطوطات کے مختلف صفحات کو پرکھتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ کس ورق کو کس کتاب میں کس جگہ پر جوڑا جا سکتا ہے۔